”شائستہ! ۔۔۔شائستہ!
”شائستہ! اپنا بستر ٹھیک کرلو اورچادر تہہ کر کے اپنی جگہ پررکھو، دس سال کی ہو گئی ہو اور ابھی تک خود سےاپنے کام نہیں کرتیں ۔”شائستہ کی امی نے کہا۔ شائستہ ویڈیو گیم کھیل رہی تھی ۔امی نے پھر پکارا”شائستہ !شائستہ ،تم سنتی کیوں نہیں؟ ”شائستہ نے سکرین سے نظر ہٹائے بغیر کہاجی امی میں ابھی گیم ختم کر کے پھر بستر سمیٹتی ہوں۔” دس منٹ بعد شائستہ اُٹھی اور ویڈیو گیم بند کر کے اپنی سہیلی سے بات کرنے ٹیرس میں چلی گئی ۔ وہ بھول گئی تھی کہ ماما نے اُسے کوئی کام کہا تھا۔امی کی آواز پھر آئی ”شائستہ! شائستہ کہاں ہو؟ تم میری بات نہیں سُن رہیں ،کیا کہا ہے میں نے، جلدی سے اپنا بستر سمیٹو۔”” جی ”ابھی کرتی ہوں۔ شائستہ بولی!
شائستہ کی امی مارننگ شو دیکھ رہی تھیں۔شائستہ بھی لائونج میں آکراُن کے پیچھے بیٹھ گئی اور ٹی وی دیکھنے لگی ۔انھیں شائستہ کے آنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ آدھا گھنٹہ اور گزرا تو انھوں نے زور سے پکارا۔
” شائستہ”کہاں ہو؟ ”بستر سمیٹ لیا کہ نہیں”ماما آہستہ بولیں میں آپ کے پیچھے ہی بیٹھی ہوں۔ شائستہ نے کہا۔
”کتنی دیر سے کہہ رہی ہوں تم میری بات کیوں نہیں سُن رہیں؟امی کا پارہ ایک دم چڑھ گیاتھا۔شام میں جب تمھارے بابا آئیںگے تو اُنھیں بتائوں گی کہ تم میری بات بالکل نہیں سنتیں ، وہ تمھاری خبر لیں گے تو تم سُدھرو گی ”انھوں نے دھمکی دی۔
یہ مسئلہ تقریباً ہر اُس گھرانے کا ہے جس میں ۸ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچے رہتے ہیں ۔ ہماری گفتگو کا غلط انداز بچوں کو ہم سے بے زار کر دیتاہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ان کی ہر بات سُن کر من و عن عمل کرنا چاہیے،جبکہ بچے کچھ کام اپنی مرضی سے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کاموں میں بچوں پر والدین کی ہدایات پر عمل کرنے کی پابندی ہونی چاہیے تو کچھ باتوں میں بچوں کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت ہو۔ اگر ہر کام میںبچوں پر اپنی مرضی مسلّط کی جائے تو بچے اپنے ماں باپ سے بےزار ہوجاتے ہیں اور وہ ان کی اہم ہدایات کو نظرانداز کرنا اور سُنی کو ان سُنی کرنا شروع کردیتے ہیں۔والدین کو اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ بچے اُن کی بات نہیں سنتے۔بچوں کے نہ سننے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔والدین کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کو شناخت کرکے ، تدارک کریں۔
شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمار ہ دسمبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔
Leave a Reply