حضرت عبداللہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں: ایک دن حضور ؐ ہمارے گھر تشریف فرما تھے۔ میری والدہ نے مجھے بلایا (اور کہا) :یہاں آؤ، میں تمھیں ایک چیز دوں گی۔ حضور ؐنے فرمایا کہ تواسے کیا دینا چاہتی ہے؟ والدہ نے کہا: ‘‘میں اسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ ’’ آپ ؐ نے میری والدہ سے فرمایا : اگر تو دینے کے لیے بلاتی اور نہ دیتی تو تیرے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ سنن ابو داؤد 1994
مندرجہ بالا حدیث نبویؐ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ بچوں کے ساتھ بھی کِذب بیانی ناقابلِ قبول ہے۔یوں تو بظاہربچوں سے جھوٹ بول کر اور جھوٹے وعدے کر کے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے، لیکن اس طرح سے بچے جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا سیکھ جاتےہیں ۔
لہٰذا اپنےبچوں سے ہمیشہ سچ بولیے اور جب بھی ان سے کوئی وعدہ کیجیے تو اسے لازماً پورا کیجیے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جھوٹ بولنے اور جھوٹے دلاسےدینے کے باعث وہ بھی جھوٹ بولنا سیکھ جائیں اور بڑے ہوکر ہمارے ساتھ بھی جھوٹے وعدے کرنے سے گریز نہ کریں۔ اُس وقت ایسے والدین اپنے بچوں پرتو خوب ناراض ہو تے ہیںلیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ انھی کا سکھلایا ہوا سبق ہے جو آج بچے اُن کے سامنے دہرارہے ہیں ۔
’’ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’ جھوٹ بولنا کسی حال میں جائز نہیں ، نہ سنجیدگی کے ساتھ اور نہ مذاق کے طور پر،اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے سے کوئی چیز دینے کا وعدہ کرے اور پھر پورا نہ کرے ‘‘ ( ادب المفرد)
مذاق میں جھوٹ بولنا بھی اسی طرح کِذب بیانی ہےجس طرح سے جھوٹے وعدے کرنا۔ اپنے بچوں کو اچھے اور جھوٹے مذاق کا فرق سمجھائیے۔اسی طرح آج کل (Prank)کی شکل میں بھی جھوٹ بولا جاتا ہے، جو جھوٹ ہی کی ایک عملی شکل(Practical Lie) ہے۔ آج کل بچے مختلف ویڈیوز دیکھ کر جھوٹا عملی مذاق (Prank)کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عملی مذاق (Practical Joke) اور شرارت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن مذاق کے نام پرجھوٹ کے عملی مظاہرے کی قطعاََ اجازت نہیں۔ لہٰذا ہمیں خود بھی ہر طرح کے قولی اور عملی جھوٹ سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی اس طرح کی قبیح عادات سے دور رکھنا چاہیے۔خدا ہمیں اور ہمارے بچوںکو سچا انسان بننے اورسچے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Leave a Reply