تعلیم کے بنیادی مقاصد اورنصاب
ذاکر اللہ خان

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرنیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

تعليمی عمل چار بنيادي عنا صر کا مجموعہ ہے۔یعنی مقاصدےتعلیم، نصاب، طريقہ ہائے تدريس اور جائزہ لينے کے طريقے۔ ”مقاصدتعلیم”کو اہم ترين عنصرکا اعزاز حاصل ہے۔ اس کو اگر تعليم کے عمل کا دِل کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ مقصد تعلیم حقيقت ميں اس آلے کي مانند ہے جس کے تحت تعلیمی ادارے اپنےفرائض سر انجام ديتے ہيں اور قومي مقاصدتعلیم حاصل کرنے ميں معاون ثابت ہوتے ہيں۔ مقاصد تعليم کواگر نشانِ منزل سمجھا جائے تو نصاب اور طریقہ تدریس اس منزل تک پہنچنے کارستہ ہے اور جائزے کا عمل اس کی کامیابی جانچنے کا طریقہ ۔

دين اسلام ميں تعليم کو ايک خاص اہميت حاصل ہے۔کيوں کہ اسلام سراپا علم و عرفان کے حصول کا درس ديتا ہے۔ حضورنبي کريمؐ پر جو پہلي وحي نازل ہوئي اس ميں بھی علم اور ذرائع علم کي اہميت کے بارے ميں واضح فرامين موجود ہيں۔ سورۃالعلق کی روشنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا پہلا اور سب سے اہم مقصد خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ اس کے بغیر علم اپنے حقیقی جوہر سے خالی ہے۔
علم اگر جوہر سے خالی ہو تو وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ جیسےانسان کا بنيادي جوہرانسانيت ہے اور اگر انسان میں انسانیت نہ ہو تو وہ حیوان کہلائے گا۔اسی طرح سورج ميں تپش ،حدت اور روشنی باقي نہ رہے تو اپنے جوہرِ اصلي سے محروم ہو جائے گااور اسے کوئي بھی سورج ماننے پر تيار نہيں ہوگا۔اسی طرح اگر جنگلي جانوروں کے اندر سے حيوانيت نکال دي جائے تو وہ حيوان کہلانے کے حق دار نہيں رہيں گے۔شير ايک خونخوار درندہ ہے ليکن اگر اس کو پنجوں اور دانتوں سے محروم کر ديا جائے تو اسديت اس کے ہاں سے رخصت ہو جائے گي اور وہ ان تمام خصوصيات سے محروم ہو جائے گا جو اسے شير بنانے کا سبب تھيں اگرچہ اس کی شکل و شباہت اور ہيئت و جسامت شير جيسي ہي ہو گي۔اطباء حضرات جڑي بوٹيوں سے عرق نکال ليتے ہيں ،اس عمل سے پہلے وہ بوٹياں بہت قيمتي تصور کي جاتي ہيں،ان کے دام وصول کيے جاتے ہيں اور انہيں پوري حزم و احتياط سے ايک جگہ سے ووسري جگہ منتقل کياجاتاہے اور ان تمام مراحل سے گزار کر ان کا جوہر اصلي ان سے کشيد کر لياجاتاہے ليکن جب وہ بہت قيمتي بوٹياں اپنے اثاثہ اصلي سے محروم کر دي جاتي ہيں تو تھوڑي ہي دير بعدکوڑے کاڈھيران کامقدر بن جاتاہے اوروہ فاضل مادہ تصور کياجاتاہے ۔ اسی لیے تعلیم کا حقیقی جوہر خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے تعلیم سے اگر معرفت ہی نکال دی جائے تو کیا بچے گا۔

تخليق آدم ؑکے وقت اﷲ تعاليٰ نے انسان کو جس دولت سے نوازا تھا۔

وہ ”علم الاسما” تھا، جس کي بنا پر حضرت آدم عليہ السلام کو تمام فرشتوں پر فوقيت ملي اور انسان اشرف المخلوقات کہلايا۔ اگر ہم مسلمانوں کي قديم درسگاہوں کا مطالعہ کريں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر دور ميں دنياوي وعصري علوم کو نصاب کا لازمی حصہ قرار ديا گيا۔ امام غزالي وہ پہلے مسلمان مفکر ہيں جنہوں نے باقاعدہ دنياوي علوم کو اسلامي نصاب ميں شامل کيا ۔آپ کے نقطہ نظر ميں نصاب اس طرح ہونا چاہيے کہ وہ دنيا اور آخرت دونوں کے لیے یکساں مفيد ہو۔ آپ نے فرض عين اور فرض کفايہ دونوں کو نصاب ميں شامل کيا۔ ابن خلدون نے علو م کو طبعي اور غير عقلي علوم کے د و گروپوں ميں تقسيم کيا ہے۔ سر سيد احمد خان اسلامي تعليم اور مغربي علوم ميں امتزاج وہم آہنگي پیدا کرنےکے قائل رہے۔ آپ کي دیرينہ خواہش تھي کہ مسلمانوں کے ايک ہاتھ ميں قرآن ہو، اور دوسرے ہاتھ ميں جديد علوم اور سر پر لا الہ الا اﷲ کا تاج سجا ہو۔ علامہ اقبال ؒ بذات خود حصول تعليم کو مقصد حيات گر دانتےتھے۔آپ کے خيال ميں تعليم کا اصل مقصد خودي، اپني روايات کا پاس اور اپني بقا تھا۔

مفکرین اسلام کے مطابق نصاب ایسا ہونا چاہیے جو فرد کي ديني اور دنيوي زندگي کے الگ الگ پہلوؤں سے شخصيت کي مکمل تعمير و تشکيل کر سکے۔ مفکرین کے رجحان سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ تعلیم کا دوسرامقصد علم الاشیاء کا حاصل کرنا ہے۔

انسان بننے کے ليے صرف انسانوں کے ہاں پيداہوجانا ہي کافي نہيں بلکہ اس کے اندر انسانيت کا جوہر ہونا بھي ضروري ہے ۔ماہرين لسانیات کہتے ہيں کہ لفظ”انسان”کااصل مادہ يا مصدر ”انس”ہے جس کا مطلب محبت، پيار، الفت اور چاہت ہے۔ پس جس کے اندر ”انس”ہوگاوہی انسان کہلانے کا حق دار ہوگا اور جس کااندرون ”انس”سے خالي ہوگا اسے کوئي حق نہيں کہ وہ اپنے آپ کو انسان سمجھے۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ تعلیم کا تیسرا بڑامقصد انسانیت پیدا کرنا ہے۔

انسانيت اور حيوانيت دو متضادالفاظ کے طورپر کثرت سے استعمال ہوتے ہيں۔ حيوان اپنے آپ کو دوسرے پر فوقيت ديتاہے ،اپنا پيٹ بھرنے کے ليے دوسرے کا شکارکرتاہے۔ حلال و حرام کي تميز کیے بغيراپنا دوزخ بھرتاہے اوراپني ہوس نفساني مٹانے کے ليے دوسرے کواستعمال کرتاہے۔جانور کو ضبط نفس کا ملکہ حاصل نہيں ہوتااسي ليے اس کے اندر برداشت کا مادہ بھي نہيں ہوتا ۔ وہ اپني فطرت کے خلاف حالات سے سمجھوتہ بھی نہیں کر پاتا ہے۔گھرميں پالاہوا پالتوجانورہوياجنگل ميں پلا بڑھا جنگلي جانور،صديوں سے ان کے ہاں کوئي ارتقا نہيں،وہ ہزاروں سال پہلے جس طرح رہتے تھے آج بھي اسي بودوباش اور خوردونوشت کے مالک ہيں ۔ جانوروں کي ايک اور صفت يہ ہے کہ ان ميں شرم و حيا اس طرح نہيں ہوتي جس طرح انسانوں ميں اعلي اخلاق پائے جاتے ہیں،قدرت نے ان کےتن ڈھانکنے کا انتظام خود سے کر دياہے اور باہمي تعلقات ميں چونکہ رشتہ داري کے حرم و احترام سے جنگل کاقانون خالي ہے اس ليے جانوروں کے تعلقات میں یہ وصف بھي عنقاہے۔جانوروں کا طبقہ طہارت کے اس جامع تصور سے بھي خالي ہے جوانساني معاشروں کا بنيادي جز سمجھاجاتاہے۔ جب ہم انسانیت کا مقصد حاصل کریں گے تو انسان میں موجود حیوانی صفات کی تہذیب کی جائے گی اس تہذیب کے بغیر تیار ہونے والی نسل تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں لائے گی۔

پس يہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خدا کی معرفت ، انسانیت اور علم الاشیا کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ايسا نصاب تعلیم تشکيل ديں جو فرد کي ديني اور دنياوي دونوں اعتبار سےشخصيت سازي اور کردار سازي کرے۔ اگر ہم آپؐ کي تعليمات کو اپنے سامنے رکھيںتو ہميں يہ بات معلوم ہو گي کہ معلم انسانيت حضرت محمد ؐنے نہ صرف ديني تعليم پر توجہ د ی بلکہ ديگر مفيد دنيوي علوم کے سيکھنے پر بھي خاص توجہ دي۔ حضرت زيد بن ثابت ؓ نے آپؐ کے حکم سے عبراني زبان سيکھي۔ جبکہ حضرت عروہ بن مسعود ؓ اور حضرت غيلان بن مسلم ؓ منجنيق کي صنعت سيکھنے کے لیے جرش نامي علاقے کو گئے۔آپؐ نے نظام تعليم کي بنياد قرآن کريم کي تعليمات پر رکھي۔ بعد ميں قرآن کريم کي قرأت و کتابت کے ساتھ ساتھ ديگر علوم صرف و نحو، تفسير و حديث ، فقہ و اصول فقہ، تاريخ و جغرافيہ،کيميا، حياتيات، فلسفہ و منطق ، طب ونجوم اور رياضي واقليدس بھي نصاب کا حصہ بنتے رہے۔ ايک مغربي محقق ڈاکٹرانڈريو ويل کے مطابق دين اسلام ہي

(Holistic Lifestyle) کي تعليم ديتا ہے۔جس کے مطابق انساني شخصيت کي مکمل تربيت ايک ہي صورت ميں ممکن ہےکہ دل ،دماغ اورجسم کا باہمي ربط قائم ہو۔

پس تعلیم کے اولين مقاصد حاصل کرنے کے لیےطلبہ ميں تصور آخرت اور نظر يہ حيات کي آگاہي پيدا کی جائے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ افراد کو زندگي کا مفہوم اور مقصد، دنيا ميں انسان کي حيثيت ، توحيد ورسالت اور آخرت کے زندگي پر اثرات اور اخلاقيات کے اسلامي اصولوں سے آگاہي ہو۔ نصاب ميں يہ قوت موجود ہوکہ وہ ايسے افراد پيدا کرے جو انفرادي اور اجتماعي زندگي کے بارے ميں اسلامي نظريات پر بھر پور يقين رکھتے ہوں اور اسي يقين کي روشني ميں زندگي کے ہر ميدان ميں اپنا رستہ خود بنا سکيں۔

ہمارے موجودہ نظام تعليم ميں دينيات کو ايک الگ مضمون کي حيثيت دي گئي ہے۔ اور باقي مضامين کو اسلامي تصور سے دور رکھا گيا ہے۔ہونا تو يہ چاہيے تھا کہ ايک ایسامکمل نصاب ہوتا جس ميں عصري علوم کے ساتھ ساتھ ديني علوم بھی شامل ہوتے تاکہ افراد کي تعليم و تربيت اسلامي عقائد و نظريات کے زير سايہ ہوتي اور اُن ميں خدا کی معرفت پيدا ہوتی اوروہ معاشرے کے بہترين اور مفيد شہري ثابت ہوتے۔ لہٰذا موجودہ نصاب کو صحيح خطوط پر استوار کر نے کي اشد ضرورت ہے۔

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ جنوری۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

ONE COMMENT

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)