عمدہ ادب
ابو ابراہیم یوسفی

اگر کسی عمارت کی بنیاد میں لگائی جانے والی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے ،تو تعمیر کا یہ عمل ابتدا ہی سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ایک نونہال کی تربیت کے ساتھ بھی ہے۔ جس کے معمولات، عادات اور فطرت کو سمجھے بغیر والدین اور اساتذہ اس کی اچھی تربیت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بچے کی کردار سازی اور تعلیم میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اُس کی نفسیات کو سمجھنا والدین اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

اس ضمن میں ہم پہلے مرحلے میں دو سال سے لے کر سات سال تک کی عمر کے بچے میں پیدا ہونے والے مختلف مثبت و منفی رویوں کا جائزہ لیں گے۔

عمدہ ادب سکھانا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ والدین کے ساتھ بچوں کے صبح و شام گزرتے ہیں۔ روزمرہ کے آداب ، کھانے پینے کے آداب ،مہمان نوازی اورنشست وبرخا ست کے آداب یہ سب باتیںبچے گھر میں ہی سیکھ سکتے ہیں۔ خوشی اور غمی پر اپنے جذبات کا اظہارکرنا،تقریبات منانا،تکلیف اور بیماری میں اپنے آپ کو سنبھالناان سب کی تر بیت بھی گھر ہی میں ممکن ہے۔ کلاس روم کے ماحول میں آداب بتائے تو جا سکتے ہیں لیکن ان کو بچوں کی عادت کا حصہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں بھی خدا کے رسولؐ نے یہ ذمہ داری والدین ہی کی بتائی ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین بچوں کی جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کے بھی مکمل ذمہ دار ہیں ۔ والدین علم اور صلاحتیں سکھانے کے لیےتو تعلیمی اداروں سے مدد لے سکتے ہیں ۔لیکن آداب زندگی سکھانا صرف تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑ سکتے۔ تعلیمی اداروں کو بھی چاہیےکہ وہ بچوں کو آداب سکھانے اور ان کی اخلاقی تربیت کرنے کا اہتمام کریں۔ لیکن تعلیمی اداروں کے انتظام کا یہ مطلب نہیں کہ والدین ادب اور اخلاق سکھانے سے بری الذمہ ہو جائیں۔ رب کریم ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اولاد کو باادب اور بااخلاق بنائے۔

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ نومبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)