قول و فعل میں مطابقت
ابو ابراہیم یوسفی

اگر کسی عمارت کی بنیاد میں لگائی جانے والی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے ،تو تعمیر کا یہ عمل ابتدا ہی سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ایک نونہال کی تربیت کے ساتھ بھی ہے۔ جس کے معمولات، عادات اور فطرت کو سمجھے بغیر والدین اور اساتذہ اس کی اچھی تربیت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بچے کی کردار سازی اور تعلیم میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اُس کی نفسیات کو سمجھنا والدین اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

اس ضمن میں ہم پہلے مرحلے میں دو سال سے لے کر سات سال تک کی عمر کے بچے میں پیدا ہونے والے مختلف مثبت و منفی رویوں کا جائزہ لیں گے۔

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ غالب اور حکیم ہے۔
اے لوگو !جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے
نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
(سورۃ الصف ۱ تا ۳)

رب العالمین ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کی پاکی کا بیان آسمان اور زمین کی ہر شے کرتی ہے وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی پاکیزگی اختیار کرے۔ جتنی زیادہ پاکیزگی وہ دنیا میں اختیار کرے گا قیامت کے دن وہ خدا سے اُتنا ہی نزدیک ہو گا ۔ دنیا میں پاکیزگی حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ دو رُخی ہے اللہ تعالی کو یہ بات با لکل نا پسند ہے کہ ہم جو بات کہیں اُس پر عمل نہ کریں۔

ہمارے قول وفعل کایہ تضاد ہمیں پاکیزگی سے دور کر دیتا ہے۔ جب ہمارے بچے ہمارا یہ تضاد دیکھتے ہیں تو وہ بھی ہم سے منافقت سیکھتے ہیں۔ اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کیجیے، اوراپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی پاکیزہ بنائیے۔ جو بات کہیےاُس پر عمل کیجیے۔ جو وعدہ کیجیے اُسے پورا کیجیے اور سچائی کو اپنا نصب العین بنا لیجیے۔

قول و فعل میں مطابقت زندگی میں سکون لاتی ہے اور ہماری اگلی نسلوںکو بھی اطمینان اور یکسوئی دیتی ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں سچا انسان بنا دے۔ ہمارے اندر سے دو رخی اور منافقت ختم کر دےاور ہمیں اپنی اولاد کا حقیقی اور سچا رہنما بنا ۔آمین!

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ اکتوبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)