سنیے کہانی، ڈسٹ بن کی زبانی
اُم باسل

ماہنامہ طفلی نے گوشئہ اطفال کے نام سے بچوں کی دلچسپی کے لیے کہانیوں اور سرگرمیوں کے ایک سلسلے کا آغاز کیا ہے جس کی مدد سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔

پیارے بچو، السلام و علیکم!

میں ایک (ڈسٹ بن)کچرے کا ٹوکرا ہوں۔ پہلے میں ایسا نہیں تھا۔ ایک کارخانے میں مجھے پلاسٹک کے دانوں سے ایک بڑا کچرے کا ٹوکرا بنایا گیا۔ پھر چند دِن تو ہم سب کچرے کے ٹوکرے کارخانے میں ہی رہے۔ پھر ایک دن چند لوگ آئے اور ہمیں ایک بڑے سے ٹرک میں بھر کر لے گئے۔ راستے بھر ہم نے خوب نظارہ کیا اور بہت ساری سڑکیں، گاڑیاں، لوگ، گھر، دکانیں، پودے اور پھول دیکھے۔ کسی کسی جگہ بہت بڑے بڑے کچرے کے ٹوکرے بھی دیکھے جنھیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے بڑے بھی مختلف جگہوں پر موجود ہیں۔ مگر ساتھ ہی ایک خوف بھی محسوس ہوا کہ یہ سب تو ایک دوسرے سے بہت دور ہیں کہیں ہم کچرے کے ٹوکرے بھی جدا نہ ہوجائیں۔ میں اِنھیں سوچوں میںگم تھا کہ ہمارا ٹرک ایک پارک کے سامنے رُکا۔ اور پھر دو آدمیوں نے مل کر ہمارے چند ساتھیوں کو ٹرک سے نیچے اتارا اور پارک والوں کے حوالے کردیا۔ انھوں نے ان ٹوکروں کو لے جا کر پارک کے اندر سخت گرمی اور دھوپ میں دُور دُور کھڑا کردیا۔ یہ دیکھ کر ہم باقی ٹوکرے بہت گھبرائے۔ میں بھی بہت گھبرایا۔ پھر ہمارا ٹرک دوبارہ چل پڑا اور تھوڑی ہی دیربعد ایک اور پارک کے سامنے رُکا۔ ایک بار پھر ہمارے چند اور ساتھی کچرے کے ٹوکروںکو اتارا گیا اور پارک والوں کے حوالے کردیا گیا۔ پھر ٹرک دوبارہ چل پڑا۔ اب تو میرا اور میرے باقی ساتھیوں کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔

آخرکار ہماری بھی باری آگئی۔۔۔ ہم روتے دھوتے بڑی مشکل سے ٹرک سے نیچے اترے اور ہمیں بھی ایک پارک میں بہت دور رکھ دیا گیا اور یوں۔۔۔ ہم سب ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ اِس جدائی کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے لیے رو رہے تھے مگر کوئی ہماری آواز نہ سن رہا تھا۔

سارادِن ہم سخت دھوپ اور گرمی میں کھڑے روتے رہے کوئی ہمارا دکھ نہ سمجھتا تھا۔ پارک کا مالی، جمعدار اور چوکیدار بھی ایک بینچ پر جاکر بیٹھ گئے اور اپنی باتوں میںمگن ہوگئے ۔ سارا دِن اداس گزر گیا۔

مگر جب شام ہوئی تو کچھ کچھ اچھا لگنے لگا۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ پاس کھڑے درخت بھی جھومنے لگے اور ہمیں بہت مزہ آنے لگا۔ ہم کچرے کے ٹوکروں نے دُور ہی سے کھڑے کھڑے ایک دوسرے کو آواز دی کہ ”اب کیا حال ہے؟” تو سب نے کہا: ”اب اِس پارک میں مزہ آرہا ہے۔”

تھوڑی دیر بعد پارک میں چھوٹے چھوٹے، ننھّے منّے بچے اپنے امّی، ابو کا ہاتھ پکڑ کر آنے لگے۔ ہنستے مسکراتے، دوڑتے بھاگتے، اچھلتے کودتے بچوں کو دیکھ کر مجھے بہت اچھالگا۔ اب میں نے پارک کو بہت غور سے دیکھا۔۔۔ ہر طرف ہری بھری گھاس پھیلی ہوئی تھی۔ پارک کے بیچوں بیچ ایک فوارہ تھا جس سے پانی اچھل اچھل کر نیچے گر رہاتھا۔ جگہ جگہ گول گول لائٹوںکے کھمبے لگے تھے، لوگوں کے بیٹھنے کےلیے بینچ بھی تھے اور بچوں کے لیے جھولے اور اُن کے کھانے پینے کی چیزوں کی ایک دکان بھی تھی۔ اوپر کھلا نیلا آسمان تھا اور اس پر پیارے پیارے سفید بادل ۔ یہ سب دیکھ کر میں نے بے اختیار شکرادا کیا کہ اللہ نے ہمیں اتنی اچھی جگہ پہنچایا۔۔۔

اب پارک میں مالی پودوں، پھولوں اور گھاس کو پانی دے رہا تھا اور جمعدار صفائی کررہا تھا۔ وہ جگہ جگہ سے کچرا اٹھا کر ہم میں ڈال رہا تھا اور ساتھ ساتھ بچوں کو کہہ رہا تھا: ”کچرے کو اِدھر اُدھر نہ پھینکیں کچرے کے ٹوکرے میں ڈالیے۔”تاکہ کوئی بچہ یا بڑاپھسل نہ جائے اور ہمارا باغ گندا نہ ہو۔ ہمیشہ صاف ستھرا رہے۔”مگر کچھ بچے اس کا کہنا نہیں مان رہے تھے اور کچرے کو ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت برا لگا ۔یہ بہت نا سمجھ بچے تھے۔ ہمارے موجود ہوتے ہوئے بھی یہ کچرا اِدھر اُدھر پھینک رہے تھے۔ مگر کچھ بچے بہت اچھے بھی تھے۔ جو کھانے پینے کے بعد پیکٹس، ریپرز اور خالی پانی کی بوتلوں کو کچرے کے ٹوکرے میں ڈال رہے تھے۔ایک بچہ بھاگ کر میرے پاس آیا اور میرے اندر کچرا ڈال کر چلا گیا۔ میں اِس بچے سے بہت خوش ہوا۔ مجھے اور میرے ساتھی کچرے کے ٹوکروںکو ایسے ہی بچے اچھے لگتے ہیں۔ جو کچرے کو اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے کچرے کے ٹوکرے میں ڈالتے ہیں اور جگہ کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔

اب مجھے یہ باغ بہت اچھا لگتا ہے۔ میں سارا دِن دھوپ اور گرمی میں اپنی جگہ پر خوشی سے کھڑا رہتا ہوں اور کہیں نہیں جاتا ہوں تاکہ جب شام میں بچے آئیں تو وہ کچرا مجھ میں پھینکیں اور میں اِس خوبصورت پارک کی خدمت کرسکوں۔۔۔

آخر میں بچو! میں آپ سے یہی کہتا ہوں کہ ”کچرے کو اِدھر اُدھر نہ پھینکیں کچرے کے ٹوکرے میں ڈالیے۔ کیونکہ جگہوں کو صاف ستھرا رکھنا اچھی بات ہے۔ ہم صفائی کی خاطر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ سڑکوں، گھروں، پارکوں، دفتروں، اسکولوں اور ہسپتالوں ہر جگہ پر۔۔۔ بس آپ ہمیں ڈھونڈیے اورسستی ُنہ دکھایئےچاہے جتنی دیر لگ جائے ۔ اگرہم نہ ملیں تو اپنے پاس ہی کسی تھیلے میں کچرا رکھ لیں اور ہمارے ملنے پر ہم میں کچرا ڈال دیجیے۔ ہمیں آپ کی خدمت کر کے بہت خوشی ہوتی ہے اور ہمارا پیٹ بھی بھرا رہتا ہے۔

”تو کون ہے وہ اچھا بچہ جو کچرے کو اِدھر اُدھر نہ پھینکے، بلکہ کچرے کے ٹوکرے میں ڈالے اور جگہوں کو صاف ستھرا رکھے۔”

ہاں ہاں! اُٹھایے ہاتھ اُٹھایے۔۔۔ شاباش! کتنے اچھے بچے ہیں۔

اچھا اللہ حافظ!

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ نومبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)