خسرہ
ڈاکٹر بشریٰ خان

والدین کو اس سے متعلق بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے

گذشتہ برس کا موسم گرما مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اپنے بچوں کے پرزور اصرار پر ہم نے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ لاہور سے کراچی پہنچے تو احساس ہوا کہ یہاں اس سال بہت شدید گرمی ہے۔

چونکہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارنے میں زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں لہٰذا ہم نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا تھا۔
لیکن کراچی میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مجھے اس وقت پریشانی شروع ہو گئی جب میرا بڑا بیٹا نزلہ، زکام، کھانسی اور پھر بخار میں مبتلا ہو گیا۔ ابراہیم کی عمر اس وقت چھ سال تھی۔ ابتدا میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ معمول کے امراض ہیں اور معمولی علاج معالجے سے ابراہیم کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔مگر میری پریشانی میں بدستور اضافہ ہوتا رہا۔ خشک کھانسی بڑھ کر بلغمی کھانسی میں تبدیل ہو گئی جبکہ چہرہ، آنکھیں اور ہونٹ سرخ ہونے لگے۔ حتیٰ کہ ابراہیم نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ بخار جو پہلے ہلکا تھا اس کی شدت بھی 102ے 104 فارن ہائیٹ تک جا پہنچی اور میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا اب ابراہیم سے روشنی کی شدت بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے میں نے کمرے کی لائٹ بند کر دی اور کھڑکیوں کو پردوںسے ڈھانپ دیا۔ ٹھنڈے پانی میں روئی بھگو کر ابراہیم کی آنکھیں صاف کرتی رہی۔ تیز بخار کی وجہ سے اسے پیاس لگتی تو پانی میں شہد گھول کر ہر ۵منٹ کے وقفے سے اسے پلاتی۔ لیکن بیماری تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ پھر اس کو دست شروع ہوگئے اور دن بدن وزن کم ہونے لگا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ خسرے کی علامات ہیں۔ لیکن ماں ہونے کے ناطے میں بہت زیادہ پریشان ہوگئی تھی۔ اسی لیے میں نے ابراہیم کا صدقہ بھی دیا۔ اور اپنی تسلی کے لیے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرتے ہوئے مجھے ابراہیم کے منہ کے اندر، کان کے پیچھے اور پیٹ کے اوپر اُبھرتے ہوئے سرخ دانے دکھائے اور مکمل تشخیص کے بعد میری بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم کو خسرہ نکل آئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ خسرہ کا زور مزید چھ روز تک رہے گا، جس کے بعد انشا اللہ ابراہیم مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا آپ نے اب تک علاج کے جو طریقہ کار اپنائے وہ درست ہیں۔ اب آپ کچھ اور باتوں کو بھی مدنظر رکھیں جیسے ہی آپ کے بیٹے کا بخار کم ہونے لگے گا اس کے تمام جسم پر بھر کر دانے نکل آئیں گے جس پر پریشانی کی ہر گز ضرورت نہیں۔ یہ دانے جسم سے فاسد مادوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں۔ ڈاکٹر نے کوئی دوا بھی تجویز نہیں کی۔ بس یہ ہدایت کی کہ بخار تیز نہ ہونے دیں اور ٹھنڈے پانی کی پٹیاں جاری رکھیں اور خاص طور پیٹ کے بچلے حصے پر پٹیاں رکھیں ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ اس بیماری کا دورانیہ عمومی طور پر سات سے چودہ دن تک ہوتا ہے۔

چند روز بعد میری چھوٹی بیٹی میں بھی ایسی ہی علامات ظاہر ہونے لگیں جن کو دیکھ کر میں نے فوراً اندازہ لگالیا کہ اسے بھی خسرہ ہونے لگی ہے۔ کیونکہ خسرہ نزلہ زکام سے دوسرے بچوں کو بھی لگ سکتی ہے۔ اس کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانی چاہییں۔ بچوں کا کمرہ اور غسل خانہ مکمل صاف رکھنا چاہیے۔ کوڑے دان کو روزانہ خالی کرانا چاہیے، اور بسر کی چادر بھی روزانہ ہی تبدیل کرنی چاہیے اور سفید چادر بچھانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کھانے پینے کے برتن اور ٹشو رومال بھی الگ الگ استعمال کرنا ضروری ہیں۔ خسرے میں مبتلا بچوں کو ہلکا پھلکا لباس پہنانا چاہیے اور پندرہ روز تک انھیں نہلانا نہیں چاہیے۔ ایسی حالت میں بچوں کو شہد ملا پانی زیادہ سے زیادہ پلانا چاہیے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دانوں کو ناخنوں سے نہ کُریدیں بہت زیادہ خارش ہو تو انہیں ململ کے کپڑے کے ساتھ سہلائیں۔ جب بچوں کے دانے مکمل ختم ہو جائیں تو انھیں نیم کے پتوں اور ادرک کے پانی کو ابال کر نہلانا چاہیے۔ میں نے اِن آزمودہ طریقوں کے علاوہ ڈاکٹر کی بھی تمام ہدایات پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ نبکلا کہ میرے بچے خسرے سے ٹھیک ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ صحت مند اور تندرست ہوگئے۔ ان کی بھوک بھی پہلے سے بڑھ گئی اور میں نے ان کے وزن میں بھی اضافہ نوٹ کیا۔ الحمداللہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی قوت مدافعت بھی بہتر ہوئی اور وہ اب معمولی موسمی بیماریوں کا مقابلہ آسانی سے کرسکتے ہیں۔

 

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ اکتوبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)