میڈیا کے متوالو ۔۔۔ بچوں کو بچا لو

 

 

ٹی وی گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے گھروںکا لازمی حصّہ بنا ہوا ہے۔یہ ابلاغ عامہ کا وہ ذریعہ ہے جس نے اپنے آغاز ہی سے مقبولیت حاصل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر کی زینت بن گیا۔ ٹیلی ویژن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹی وی کے آتے ہی لوگوں نے اپنے کھانے پینے ، ملنے ملانے، سونے جاگنے ،غرض یہ کہ اپنی زندگی کے تمام معمولات کو ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگراموں کے حساب سے ترتیب دینا شروع کردیا۔ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی ٹی وی دیکھنے کے رسیا بن گئے ۔ بچے بھی اپنے وقت کا بڑا حصہ ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے اور دیر تک ٹی وی دیکھنے میںگزارتے ہیں ۔ ا س پر نشر ہونے والے پروگراموں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اچھی بری باتیں سیکھتے ہیں۔ اس طرح الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر ٹی وی ، بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے رویوں اور رجحانات کی تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ شایدیہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب تو ایسے کسی گھر کا تصور بھی محال ہے جس میں ٹی وی اور ابلاغ عامہ کے دیگر ذرائع کا وجود نہ ہو۔

میڈیا کے معاشرے پر ہونے والے اثرات کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میڈیا ہمیں اور خاص طور پر ہمارے بچوں کو مثبت اور منفی دونوں ہی طرح سے متاثر کر رہا ہے۔ میڈیا کے روشن پہلو پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ بچوں کی تعلیم و تربیت ، مثبت تفریح کی فراہمی اور ان کے شعور کی آبیاری کے سلسلے میں ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذمہ دارانہ استعمال کے ذریعے بھرپور فائدہ اُٹھا یا جا سکتا ہے۔ مثبت تفریحی پروگرام بچوں میں صحت مند مشاغل کی رغبت اور رجحان پیدا کرتے ہیں۔ دلچسپ دستاویزی فلمیں بچوں کو فطرت کے مختلف مظاہر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ معلوماتی اور تعلیمی نوعیت کے پروگرامات کے ذریعے بچوں کی معلومات اور علم کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ ٹی وی کی اس اسکرین ہی کے ذریعے بچے مختلف ممالک اور کلچر کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں ٹی وی اور ذرائع ابلاغ کا استعمال بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ان کی ذہنی استعداد میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دوسری طرف میڈیا اور ٹی وی کا بے تحاشا اور غیر ذمہ دارانہ استعمال بچوں کے لیے مختلف نفسیاتی ، جسمانی ، اور معاشرتی نقصانات کا سبب بنتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی وی اور میڈیا کےان تمام پہلوؤںکو سامنے رکھتے ہوئے والدین اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ بچوں کے لیے میڈیا کے برے اثرات سے بچنا اور اس کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اُٹھانا، دونوں ہی آسان ہوجائیں۔ٹ
ی وی کے منفی اور مضر اثرات کا دو پہلوؤں سے جائزہ لینا ضروری ہے؛

الف) میڈیا کے بے تحاشا استعمال کے بچوں پر منفی اثرات

&


ب) منفی میڈیائی پروگراموں کےبچوں پرمنفی اثرات

 

 میڈیا کے بے تحاشا استعمال کے بچوں پراثرات

 

خراب تعلیمی کارکردگی

 

جوبچے اپنا زیادہ وقت پڑھائی اور دیگر صحت مند مشاغل کے بجائےٹی وی دیکھنے میںخرچ کرتے ہیں ،ان کی تعلیمی کار کردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

 

موٹاپا

زیادہ دیر تک ٹی وی کے سامنےبیٹھےرہنے سے بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کی جانے والی تحقیقات کے مطابق بچوں میں ٹی وی اور ذرائع ابلاغ کے استعمال کے بڑھتے رجحان کے باعث، بچے تیزی سے موٹاپے کا شکار ہوتے جارہے ہیں ، جس کی وجہ سے ان بچوں میں ذیابطیس اور دیگر بیماریوں کےخطرات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

 

سستی اور کاہلی

جسمانی کھیل کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کے بجائے ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے کے باعث بچوں میں سستی اور کاہلی پیدا ہوتی ہے اور وہ مختلف جسمانی سرگرمیوں سے کترانے لگتے ہیں ۔

 

تنہائی پسندی

اپناوقت گھر والوں اور ہم جولیوں کے بجائے ٹی وی کے سامنے گزارنے والے بچے دوسرے بچوں سے ملنے ملانے ، بات چیت کرنے، اور کھیلنے کودنے سے گھبراتے ہیں اور تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ۔

 

 منفی پروگراموں کےبچوں پر اثرات

 

بچے اپنی ناتجربہ کاری اور ذہنی ناپختگی کے باعث ٹی وی پر پیش کی گئی خیالی دنیا کو حقیقی دنیا تصور کرتے ہیں۔اچھے اور برے، فائدہ مند اور نقصان دہ غرض یہ کہ کسی طرح کے بھی پیغامات میں کوئی تفریق نہیں کرپاتے ، جس کے باعث وہ نہایت آسانی اور بغیر کسی مزاحمت کے ٹی وی اسکرین پر پیش کیے گئے ہرپیغام کا شکاربن جاتے ہیں۔
ان منفی اثرات میں سے چند درج ذیل ہیں:

 

تشدد پسندی اور جارحانہ پن

ماردھاڑ والی فلمیں اور کارٹون دیکھنے کے باعث بچوں کے رویے میں جارحانہ پن پیدا ہوتا ہے، اور وہ تشدد کو ایک قابل عمل اور مفید رویے کے طور پر اپنا لیتے ہیں۔

 

بے حسی

ایکشن اور تشدد سے بھرپورٹی وی پروگرامات دیکھنے کے باعث بچے درد اور تکلیف کی کیفیات کے حوالے سے بے حسی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اپنی عملی زندگی میں بھی دوسروں کی تکالیف پر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

احساس محرومی

ٹی وی پر پیش کیے جانے والے پروگرامات اور اشتہارات میں ایک ایسی خیالی دنیا کی تصویر پیش کی جاتی ہے، جو ہماری اور بچوں کی حقیقی دنیا سے قطعاََ مختلف ہوتی ہے۔ اس طرح کے پروگرامات دیکھنے سے بچے اپنی زندگی ،مادی اشیا، اور سہولیات کےبارے میں احساسِ محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

 

ناقابل قبول معاشرتی رویے

بدقسمتی سے ٹی وی پروگراموں میں مختلف منفی اورناپسندیدہ رویوں کواچھا اور قابل قبول بنا کرکے پیش کیا جاتا ہے، جس کے باعث بچے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ان نا قابل قبول رویوںکو سیکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس انفارمیش ایج میں جب ہر طرف ذرائع ابلاغ کا دور دورہ ہے ، اور ٹی وی ہمارے لائونج سے نکل کر اسمارٹ فون کی صورت میں ہماری ہتھیلیوں تک آپہنچا ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کوذرائع ابلاغ کے ان نقصانات سےکیسے بچاسکتے ہیں۔ ذیل میں ہم چند ایسی تجاویر پیش کررہے ہیں کہ جن کے ذریعےہم اپنے بچوں میں ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے نقصانات سے بچتے ہوئے ان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں ۔

 

ٹی وی دیکھنے کےوقت اور مقدار کا تعین

آج کے دور میں یہ بات عملاََناممکن اور قطعاََغیر مناسب ہے کہ بچوں کے ٹی وی دیکھنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔اس طرح کی پابندی بچوں میں ٹی وی دیکھنے کے رُجحان میں اضافے اور چھپ کر ٹی وی دیکھنے کی عادت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کے بجائے بچوں کی عمر کی مناسبت سے ان کے ٹی وی دیکھنے کا وقت اور دورانیہ مقرر کیجیے۔ بچوں کے لیے سب سے مناسب وقت شام ۴ سے ۷ بجے کے درمیان ہوسکتا ہے، جب اکثر ٹی وی چینلوں پر بچوں سے متعلقہ پروگرامات نشر ہورہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں مقررہ وقت کے علاوہ یا مقررہ مقدار سے زیادہ ٹی وی دیکھنے کی اجازت مت دیجیے۔


مناسب ٹی وی پروگراموں کا انتخاب

بچوں کی ذہنی استعداد اور ان کی عمر کی مناسبت سے ان کے لیے ٹی وی پروگراموں کا انتخاب کیجیے۔ خبریں، بڑوں کے ڈرامے، فلمیں اور ٹاک شوز وغیرہ دکھانے سے قطعاََ اجتناب کیجیے۔ ان کے پسندیدہ کارٹون اور دیگرپروگراموں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیجیے۔ خاص طور پر غیر ملکی کارٹون پروگراموں سے ہوشیار رہنے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ کارٹون ہماری روایات اور اقدار سے متصادم ہوتے ہیں اوربغیر کسی قطع و برید کے ہمارے ٹی وی چینلوں پر نشر ہوتے ہیں اور بچوں کی لسانی گراوٹ اور ذہنی پراگندگی کا سبب بنتے ہیں۔

 


بچوں کے ساتھ مل کر ٹی وی دیکھیے

بچوں کو میڈیا کے برے اثرات سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ان کے ساتھ مل کر ان کی مرضی اور پسند کے پروگرامات دیکھیے۔ اس طرح سےناصرف آپ بچوں کے پسندیدہ پروگرامات اور ان میں پیش کیے جانے والے اچھے برے پیغامات سے واقف ہوں گے ، بلکہ آپ کو اپنے بچوں کی اصلاح کا بروقت موقع بھی فراہم ہوگا ۔


مثبت پیغامات کی فراہمی

ٹی وی پروگراموں کے انتخاب میں احتیاط کے باوجود ٹی وی دیکھتے ہوئےبچے ایسے مناظر، باتوں، رویّوں اور خیالات سے واقف ہو سکتے ہیںجو ان کے لیے سخت گمراہ کن اور نہایت ضرر رساں ہوں۔ ایسے منفی میڈیائی پیغامات کا اثر زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بچوں کوان کی عمر کے مطابق وقتا فوقتا، مثبت اقدار، اعتقادات اور پسندیدہ معاشرتی رویوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ان کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے وقتا ًفوقتا ًگفتگو کرتے رہیں۔

 


میڈیا ئی پیغامات کی حقیقت

اپنے بچوں کو میڈیا پر نشر ہونے والے پیغامات کی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ انھیںسمجھائیے کہ کارٹون پروگراموں کے کرداروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب فرضی کردار ہیںجو لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق کردار ادا کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو۔ اشتہار میں دکھائی جانی والی تمام اشیا اچھی نہیں ہوتیں۔ اشتہارات دراصل مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کے منافع کو بڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں، نا کہ آپ کے کسی حقیقی مسئلےکو حل فراہم کرنے کے لیے۔


تفریح کےمتبادل ذرائع کی فراہمی

اپنے بچوں کو ٹی وی کی لت اور اس کے برے اثرات سے بچانے کے لیے تفریح کے دیگرمواقع فراہم کیجیے۔ کھیل کے میدان میں لے جائیے ، اور ان کے پسندیدہ کھیل کی باقاعدہ تربیت دلوائیے۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملوانے لے کر جائیے۔ گھر میں ان کے ساتھ مل کر مختلف انڈور گیم کھیلیے۔گھومنے پھرنے جائیےاور پکنک کے پروگرام بنائیے۔ یقین جانیے آپ کے بچے ٹی وی کے سامنے گم سُم بیٹھے رہنے کے بجائے اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لے کر زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔
آخر میں ہم حکومت اور میڈیا کے تمام ذمہ داران سے درخواست کریں گے کہ وہ بچوں پر ہونے والے میڈیا کے ان اثرات کوسمجھیںاوراپنے اوپرعائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ادراک کریں۔ تمام چینل شام ۴ بجے سے شام ۷ بجے تک کا وقت بچوں کے پروگراموں کے لیے مختص کریں اور ان اوقات میں بچوں کے لیے مثبت تفریحی پروگرامات نشر کیے جائیں۔ مختلف مظاہر فطرت کے بارےمیںبنائی گئی دستاویزی فلمیں دکھائی جائیں اوربچوں کو معاشرے کا مفید اور ذمہ دار رکن بنانے کے لیے پروگرام تشکیل دیے جائیں۔ غیر ملکی کارٹون اور پروگراموں کا انتخاب کرتے وقت اپنی اقدار اورروایات کا خاص خیال رکھا جائے، اور بچوں کے لیے مخصوص اوقات میں غیر ضروری اشتہارات دکھانےاور پر تشدد واقعات کی خبریں نشر کرنے سے لازماََگریز کیا جائے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)