ہمارا تعلیمی نظام
ذاکر اللہ خان

روٹی کمانا تو سکھاتا ہے، مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں!

میں ہندستان کے ہر حصے کا سفر کرچکا ہوں میں وہاں کسی فقیر کو چور نہیں دیکھا۔ اس ملک میں ایسی دولت، ایسی اعلیٰ اقدار اور ایسے قابل لوگ دیکھے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ہم انہیں کبھی فتح کرسکیں گے جب تک ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی(ان کا روحانی و ثقافتی ورثہ) نہ توڑدیں، چنانچہ میں ان کے پرانے نظام تعلیم اور کلچر کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر ہندستانی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی نظام اور انگریزی ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی اور کلچر بھول جائیں گے۔ جو ہم چاہتے ہیں یعنی خالصتاً ایک مغلوب قوم۔

یہ وہ بیان ہے جو لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں دیا تھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا اُس کی بات بالکل درست تھی۔ انگریز کے ہندوستان پر قبضے سے قبل ہمارے عظیم الشان تعلیمی نظام کے تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسا جامع نظام اور کیسی عظیم اقدار و روایات تھیں جنہیں انگریز سامراج نے ختم کردیا۔ ہمارا آج کا تعلیمی نظام روٹی کمانا تو سکھاتا ہے مگر زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں سکھاتا، نصاب میں اخلاقیات اور زندگی گزارنے کا طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ اس دور کے تعلیمی اداروں میں فکروشعور کی تعلیم نہیں دی جارہی، سب کے ذہن ایک مخصوص سوچ کے ساتھ جکڑے ہوئے، یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، کسی کا مقصد تعلیم حاصل کرنا اور قابل بننا نہیں بلکہ نام نہاد ڈگریاں حاصل کرنا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے زیادہ علم نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے رکھتے ہیں۔

سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ ہوچکا ہے کہ وہاں ایک کمرے میں اتنے طلبا ہوتے ہیں کہ پیچھے بیٹھنے والے طالب علموں کو استاد نظر ہی نہیں آتا، اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے جن میں سے شاذ و نادر ہی باقاعدگی سے کلاس لیتے ہیں۔ ایک استاد پر بیک وقت سو سے ڈیڑھ سوطلبا کو پڑھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکنیکل تعلیم کی طرف بھی توجہ نہیں دی جاتی، طالب علموں کو اس سے بہت دور رکھا جاتا ہے، تعلیمی فنڈز اور بجٹ کم ہیں، اساتذہ کو بنیادی ٹریننگ نہیں دی جاتی یہ تمام عناصر شرحِ خواندگی بڑھانے کی راہ میں حائل ہیں۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے، ہر سطح پر ٹیکنیکل تعلیم کو لاگو کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ ان کی بھی تربیت ہو، وہ بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوںاور سب سے ضروری بات یہ کہ نہ صرف اس طرح کی پالیسیاں بنائی جائیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام متوازن ہوجائے تو اس ملک کے ہر نوجوان کا مستقبل بھی روشن ہو اور ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل طے کرے۔

 

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ اکتوبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)