نونہالوں کی تربیت کا حسّاس دو ر
عبدالحئ ثاقب

اگر کسی عمارت کی بنیاد میں لگائی جانے والی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے ،تو تعمیر کا یہ عمل ابتدا ہی سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ایک نونہال کی تربیت کے ساتھ بھی ہے۔ جس کے معمولات، عادات اور فطرت کو سمجھے بغیر والدین اور اساتذہ اس کی اچھی تربیت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بچے کی کردار سازی اور تعلیم میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اُس کی نفسیات کو سمجھنا والدین اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

اس ضمن میں ہم پہلے مرحلے میں دو سال سے لے کر سات سال تک کی عمر کے بچے میں پیدا ہونے والے مختلف مثبت و منفی رویوں کا جائزہ لیں گے۔

آزادی پسند:

ہر نونہال فطری طور پر آزادی پسند ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ نونہال جب دو سال کی عمر میں بولنا شروع کرتا ہے تو اپنی مرضی اورضرورت پوری کروانے کے لیے ایک ہی بات کا بار بار ذکر کرتا ہے۔ مرضی پوری ہونے پر بچے کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جس طریقہ کو اپنا رہا ہے وہ ہی درست ہے۔ یوں عمر کے تیسرے سال اِس عادت میں اضافہ ہوتا ہے۔

من مانی اور ضد:

آزادی پسند ہونے کی یہ فطرت بچے میں اپنی مرضی منوانے کی عادت سے جُڑی ہوتی ہے۔ یوں اپنی بات منوانے والے بچے میں یہ احساس جنم لیتا ہے کہ وہ جو کہے گا، مانگے گا، وہ اُسے ملے گا اس کے برعکس جب اسے مطلوبہ شے میسر نہیں ہوتی تو وہ اپنی آزادی سلب ہوتی محسوس کرتا ہے۔ جس سے اس میں ضد پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی پسندیدہ چیز کو ہر صورت حاصل کر لینے کی ضد اس کے مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا کردیتی ہے۔ خود غرضی اور اپنی بات منوانے کا یہ رویہ بچے کی فطرت میں ہوتا ہے۔ اگر اس عمر میں اس رویے سے درست انداز میں نمٹ لیا جائے تو یہ رویہ سات سال کی عمر تک خود بہ خود ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش سے ضد اور من مانی بچے کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔

حسد و رقابت:

بچے کے بنیادی مزاج میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے پاس موجود ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ اگر عین اسی لمحے بچے کی مطلوبہ شے کسی دوسرے بچے کے پاس موجود ہے تو طلب کرنے والے بچے میں حسد کا جذبہ سامنے آ جاتا ہے۔ یوں اس میں دوسرے بچوں سے رقابت کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے اور وہ کبھی نہ ہارنے کے تصور سے واقف ہوتا ہے۔ اس عمر میں وہ کسی بھی کام میں پیچھے رہ جانے اور ہارنے کو قبول نہیں کرتا۔ اس عمر میں وہ خود پر کی جانے والی روک ٹوک بھی برداشت نہیں کرتا۔ تاہم اس دوران اگر اسے کوئی دوسری اُس جیسی پُرکشش چیز دے دی جائے تو وہ پہلے والی چیز کو بھول کر نئی میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ نونہال اشیاء کے علاوہ رشتے اور محبت میں بھی تقسیم قبول نہیں کرتا۔

سیکھنے کی صلاحیت:

اس عمر کے بچے میں موجود مثبت عادات و خصائل کا جائزہ لیں تو سب سے قابل ذکر بات بچے کے سیکھنے کی بہترین صلاحیت ہے۔ بچہ اپنے اردگرد موجود افراد کی نقالی کرنے کی بہترین اہلیت رکھتا ہے۔ وہ والدین سے ہی بہت کچھ سیکھتا اور نقل کرتا ہے۔ وہ نقل کے ذریعے بہت سی حرکات و سکنات اور الفاظ دہراتا ہے۔ وہیں اس کے مشاہدے کا عمل بھی بہت اعلیٰ ہوتا ہے۔ وہ حواسِ خمسہ کا بھرپور استعمال کرتا ہے۔ سننے اور دیکھنے کے ساتھ نئے نئے ذائقے چکھنے، خوشبو سونگھنے اور چیزوں کو چھونے کے تجربات کرتا ہے۔ تین سال کی عمر میں بچے کی بصری اور صوتی یادداشت بھی مثالی ہوتی ہے۔ ہر چیز دیکھنا اور سننا اس کا شوق ہوتا ہے۔ دیکھی اور سنی ہوئی چیزوں کو یاد رکھنا بچے کے لیے آسان ہوتا ہے۔ بچے کی طبیعت میں کام کرتے رہنے کا بھی شوق ہوتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں خود کو مصروف رکھنے میں بہتر محسوس کرتا ہے۔ پانچ سال کی عمر سے لکھائی کرنے کے بھی قابل ہو جاتا ہے۔ وہ چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کی عمدہ صلاحیت رکھتا ہے۔ آوازوں میں موجود رویے بھی با آسانی سمجھ لیتا ہے۔

فطری ماحول:

بچہ فطری ماحول میں رہنا اور قدرتی غذائیں کھانا پسند کرتا ہے۔ اُسے قدرتی مناظر، سورج، بادل، چاند، تارے، درخت اور جانور بہت پُرکشش لگتے ہیں اور انہیں دیکھ کر وہ خوشی اور راحت محسوس کرتا ہے۔ بچہ پھل، سبزیاں، دودھ، گوشت اور ایسی دیگر قدرتی خوراک پسند کرتا ہے۔ مگر جب والدین کی جانب سے اسے بازاری اشیاء کھلائی جاتی ہیں تو وہ اس کے فطری رجحان پر غالب آجاتی ہیں۔ ایسے یہ نونہال فطری طور پر صبح بیدار ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اگر اسے رات دیر تک جگایا جائے تو اس کے لیے صبح جلدی اُٹھنا ممکن نہیں ہوتا۔ بچے اپنے بڑوں پر مکمل بھروسا کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔ خوش رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور خوشی کے جذبات کا بھرپور اظہار کرنا چاہتے ہیں۔

دو سے سات سال تک کی عمر کے بچوں میں موجود عادات اور خصائل کا درست مشاہدہ کرکے ان کی فطرت کو بہتر انداز میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ یہ فطری رویے احسن تعلیم و تربیت کے ساتھ ہی درست سمت میں نکھارے جاسکتے ہیں۔ جبکہ فطرت میں موجود مثبت رویوں کو مزید چار چاند لگانے کے لیے بھی بچوں کا نفسیاتی مشاہدہ کرتے ہوئے تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ تربیت کس انداز میں کی جائے، یہ اپنے تئیں ایک الگ موضوع ہے۔

فطری طور پر بچے بڑوں پر مکمل بھروسہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ اکتوبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)