ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ذاکر اللہ خان

رواں ماہ ہم نے ماہنامہ طفلی کے بانی و مدیر اعلیٰ اور طفلی ایجوکیشن کے روحِ رواں، عبدالحئی ثاقب کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی۔ عبدالحئی ثاقب کاشمار پاکستان کے ان سپوتوں میں ہوتا ہے کہ جن کی شبانہ روز یہی کوشش رہتی ہے کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے پاکستان کے معاشرے کو ایک خوش حال اور باکمال معاشرہ بنایا جائے یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی تمام تر توا نائیاں اور وسائل بروئے کار لا کر ۲۰۱۳ میں طفلی ایجوکیشن کی داغ بیل ڈالی ۔ تعلیم ،تربیت اور تفریح کے جدید ذرائع کے ذریعے بچوں کی شخصیت سازی اورکردار سازی کے کام کا باقاعدہ آغاز کیا، اورکتابوں کی اشاعت، بچوں ، والدین اور اساتذہ کی تربیت کو اپنا شعار بنایا ۔

والدین،اساتذہ اور بچوں سے ربط بحال رکھنے کے لئے ماہنامہ طفلی کا آغاز کیاجا رہا ہے اس سلسلے کی پہلی اشاعت اکتوبر۲۰۱۷ آپ کی نظر ۔

ماہنامہ طفلی : طفلی ایجوکیشن کب قائم ہوا اورآپ کا شعبہ تعلیم سے تعلق کتنا پرانا ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : طفلی ایجوکیشن ۲۰۱۳میں قائم ہوا ۔جبکہ میں گزشتہ اٹھارہ سالوں سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں۔لیکن طفلی ایجوکیشن سے قبل کے سفر کو میں اس لیے نامکمل سمجھتا ہوںکہ اس میں تربیت کا عنصر بہت کم تھا ۔ لہذا طفلی ایجوکیشن قائم کرنے کا بنیادی مقصد تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت اور جسمانی نشوونما پر کام کرنا بھی ہے ۔ جس میں ہم نے”پیدائش” سے لے کر ”اٹھارہ سال” تک کے بچے کو اپنا محورو مرکز بنا یا ہے ۔

ماہنامہ طفلی : طفلی ایجوکیشن میں تعلیم ، تربیت اور بچے کی صحت کے حوالے سے آپ کا کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : تعلیم کے حوالے سے طفلی ایجوکیشن بچوں کے لئے کتب تیار کرتا ہے جبکہ تربیت کے حوالے سے اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔اور والدین کی تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارافیس بک پیج بہت متحرک ہے۔ جس پرروزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہم سے رابطہ میں کرتے ہیں ، اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے نت نئی تکنیک سیکھتے ہیں ۔جبکہ صحت کے حوالے سے بھی لوگوں کو مفید مشورے دئیے جاتے ہیں ۔ بہت جلد ہم والدین کے لیے تربیتی پروگراموںکا بھی ایک سلسلہ شروع کرنے والے ہیں ۔

ماہنامہ طفلی : آپ کا ادارہ کس سطح کی کتب تیار کررہا ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : ہم اسکول کی سطح کی تو تمام کتب تیار کررہے ہیں اس کے علاوہ لائبریری کتب اور دیگر غیر نصابی کتب بھی تیار کی جاتی ہیں ۔بہت جلد انشااللہ ہمارا نیا نصاب بھی تیار ہوجائے گا جس میں پرائمری ،سکینڈری اور او لیول کی سطح کی کتب شامل ہوں گی ۔

ماہنامہ طفلی : آپ کا ادارہ دیگر پبلشرز سے کیسے منفرد ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : دیکھیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ طفلی ایجوکیشن کوئی پبلشنگ کمپنی نہیں ہے بلکہ یہ بچوں کے لیے تحقیقی اورتعلیمی ادارہ ہے ۔اگر ہم صرف پبلشرز ہوتے تو صرف کتابیں ہی تیار کرتے ۔ پبلشنگ ہمارا ایک جز ہے۔ ہمارا موضوع بچہ اور ہر حوالے سے اس کی تعلیم وتربیت ہے۔ ہماری ہر کاوش ”Child Centered” ہے ۔ جبکہ عام طور پر اشاعتی ادارے ” Customer Centered ”ہوتے ہیں ۔ ہمارا مرکز و محور صرف بچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کتب سے بچہ نہ صرف اپنی تعلیمی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ بلکہ وہ مکمل دلچسپی قائم رکھتے ہوئے بہت تیزی سے سیکھتا چلا جاتا ہے ۔
ماہنامہ طفلی : ما ہانہ طفلی بچوں کی تربیت کے حوالے سے کس قسم کے اہداف رکھتا ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہمارا محور بچہ ہے تو یہ سادہ سی بات ہے کہ بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے صرف کتاب کافی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمیں وہ تمام لوازمات پورے کرنے ہیں جو اسے ایک مکمل ، باکردار اور تعلیم یافتہ شخص بنائیں ۔کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مگر کتاب کو
پڑھانے کے لیے ماہر استاد کی بھی ضرورت ہے، اساتذہ کے لیے ہم ٹیچرز ٹریننگ کا اہتمام کرتے ہیں اور والدین کے لیے ”تربیت ومشاورت ” کا بندوبست موجود ہے ۔ کتاب ،استاد اور والدین سے بننے والی تکون میں موجود بچے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اُس کی اوراس کے والدین کی ہے ۔چونکہ بچہ ساٹھ سے ستر فیصد وقت اپنے گھر میں گز ارتا ہے ۔اس لیے اس کی تربیت میں گھر کا ماحول نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔اسی لیے والدین کی تربیت بہت ضروری ہے۔ یوں ان تینوں کا درست انداز میں کام کرنا ہی بچے کی شخصیت کو مکمل بناتا ہے اور مستقبل میں اسے کامیاب بنادیتا ہے ۔

ماہنامہ طفلی : آپ نے پاکستانی والدین میں کس مسئلے کو سب سے زیادہ نوٹ کیا؟

عبدالحئی ثاقب : ویسے تو ایسی بہت سی باتیں ہیں جو والدین کو سمجھنا بہت ضروری ہیں ۔مگر ایک چیز ایسی ہے جس کا نہ ہونا زندگی کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے ۔اور وہ ہے شکر کا جذبہ ،اسی شکر کے جذبے کاعملی اظہار لوگوں کی تعریف کرنا بھی ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں تعریف کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے بچے کی تعریف کریں ، بچے اپنے والدین کی تعریف کریں۔اور دوسروں کے بچوں کی بھی تعریف کریں ۔گھر میں موجود خاکروب کی تعریف کریں۔مالی کی تعریف کریں ۔بچوں کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔ان کی تعریف کرنے سے ان میں”جذبہ شکر” پیدا ہوتا ہے۔

ماہنامہ طفلی : طفلی ایجوکیشن کی جانب سے دی جانے والی ٹریننگ میں کیا انفرادیت ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : بنیادی طورپر ہمارے ٹریننگ پروگرام کا مقصد رویوں میں بہتری لانا ہے۔ ٹریننگ مکمل ہونے پر جس بات کا خصوصی جائزہ لیا جاتا ہے وہ یہ جاننا ہوتا ہے کہ شرکا نے اس کے اختتام پرکیا سیکھا؟ اور کیا اس سے ان کی زندگی میں تبدیلی آئی ؟ عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقرر بہت اچھا ہوتا ہے اور لوگ بھی اسے خوب داد دیتے ہیں مگر جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے توکوئی خاطر خواہ جواب سامنے نہیں آتا۔اس لیے ہمارا اولین مقصد صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ زندگی کے رویوں کو بہتر کرنا ہے ۔

ماہنامہ طفلی : طفلی ایجوکیشن کا اخلاقی تربیت پرزیادہ زور دینے کی وجہ؟

عبدالحئی ثاقب : درحقیقت اخلاقی تربیت کا کام اسکول میںایک خاص حد تک ہی ہو پاتاہے۔ چونکہ آج کل اسکولوں میں اساتذہ بدلتے رہتے ہیں ،جس کی وجہ سے بچے اور استادکے درمیان وہ انسیت نہیں پیدا ہوتی جو بچے کی اخلاقی تربیت کے لیے ضروری ہے ۔اس انسیت اور جذباتی تعلق کی موجودگی میں بچے کو بات سمجھانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔یہ تربیت گھرکے ماحول میں والدین کی جانب سے کرنا زیادہ آسان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہؓ کی اخلاقی تربیت اُن کے ساتھ وقت گزار کرکی۔

ماہنامہ طفلی : آپ نے تعلیم و تربیت کے شعبے کا انتخاب کیوں کیا ؟

عبدالحئی ثاقب : میرا ماننا ہے کہ جو آپ کی زندگی کا شوق ہو اسی کو آپ اپنا کام بنالیجیے۔میرے خاندان کے دیگر افرادتجارت کے شعبے سے وابستہ ہیں، جبکہ میں نے تعلیم کے شعبے کو اختیار کیا، کیونکہ یہی میراشوق تھا ۔آغاز میں مجھے کچھ مشکلات بھی پیش آئیں اور خاندان کی مخالفت کابھی سامنا کرنا پڑا کہ خاندانی کام چھوڑ کر تم یہ کس شعبے میں جارہے ہو۔ لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں اس کام میں کامیاب ہوجاؤں گا ۔

ماہنامہ طفلی : آپ بچپن ہی سے علم دوست ہیں یا تعلیم سے یہ شوق بڑھا؟

عبدالحئی ثاقب : جی مجھے بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا ۔خاس طور پر کہانیاںپڑھنے میں جی لگتا تھا۔میں دوسرے بچوں کی نسبت کھیلوں میں کم شرکت کرتا تھا ،جبکہ کہانیوں اور غیر نصابی کتابوں کو پڑھنے میں دلچسپی لیتا تھا۔اس زمانے میں اشتیاق احمد کے ناول ،کچھ رسالے جیسے نونہال وغیرہ کا مطالعہ میرا معمول تھا۔ گھر میں لائبریری میسر تھی جو کتاب ملتی میں پڑھنا شروع کردیتاچاہے وہ سمجھ آئے نہ آئے ۔ مجھے یاد ہے فلکیات کی ایک کتاب تھی جسے میں نے اتنے شوق سے پڑھا کہ سیاروں اور ستاروں سے متعلق اچھی خاصی معلومات ذہن نشین ہو گئیں ۔ شایدمطالعے کا یہ شوق ہی تھا جس نے مجھے مستقبل میں ایسا ادارہ بنانے پر مجبور کیا ۔

ماہنامہ طفلی : انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز کے اس دور میں بچے کو مطالعہ کا شوق کیسے پیدا ہوگا ؟

عبدالحئی ثاقب : مطالعہ کا مشغلہ اور مطالعہ کی مہارت الگ الگ چیزیں ہیں یہ عام تجربے کی بات ہے جو مزہ مطالعہ میں ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہے ۔اس کے لیے بچے کا تخیل بہت معاون ہے۔اس حوالے سے بہترین حکمت عملی رات کو سونے سے پہلے کہانی سنانا ہے ۔اس عمل سے بچے کے تخیل کو پرواز ملتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ اس تخیل کو حاصل کرنے کے لیے کہانیوں کی کتابوں کا رخ کرتا ہے ۔ ایک بار اسے یہ مزہ لگ گیا پھر دیکھیں وہ کبھی مطالعہ سے دور نہیں ہوگا ۔

ماہنامہ طفلی : روایت سے ہٹ کر کام کرنے میں آپ کو مشکل ہوتی ہے؟

عبدالحئی ثاقب : مشکلات تو درکنار نقصانات ہوتے ہیں ۔اکثر ایسا ہوا ہم نے کوئی چیز بنائی وہ لوگوں نے قبول نہیں کی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چیز اچھی ہے مگر معاشرہ اسے قبول نہیںکرتا۔پھر ہم اس کے حوالے سے ٹریننگ کرتے ہیں ۔اس کے نتائج تاخیر سے ملتے ہیں تب تک ہمیں اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔اکثر دو تین سال کا عرصہ بھی گزرجاتا ہے ۔

ماہنامہ طفلی : شعبہ تعلیم میں آپ کی سب سے بڑی کامیابی کون سی ہے ؟

عبدالحئی ثاقب : ہم نے تعلیم بالغاں کا ایک پراجیکٹ نہ صرف تیار کیا بلکہ اسے بھرپور طریقے سے کامیاب بنایا۔ ۲۰۰۳ میں اسی منصوبے ”نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ” کے تحت ستر ہزار افراد کو تعلیم دی گئی۔آج بھی قومی سطح پر یہ نافذ عمل ہے ۔
یہی وہ پراجیکٹ ہے جس سے لاکھوں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہمارا فیس بک پیج بہت زیادہ مقبول ہے ۔نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک سے بھی پیغامات ملتے ہیں۔والدین کی جانب سے ہمیں فیڈ بیک ملتا رہتا ہے۔جو ہمیں بتاتے ہیں کہ پیرنٹنگ کے حوالے سے آپ کی بتائی ہوئی تجاویز سے ہمارا بچہ ٹھیک ہوگیااور بہتری کی جانب گامزن ہے ۔

ماہنامہ طفلی : تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے آپ حکومت کو کہاں دیکھتے ہیں؟

عبدالحئی ثاقب : ہمارے ہاں حکومت انتظامی حوالوں سے زیادہ کام کرتی ہے ، فرنیچر ، گاڑیاں اور دیگر چیزوں کو مہیا کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ اساتذہ کی تربیت اور اچھی کتب کی فراہمی اور دیگر معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر آپ ان چیزوں پر عمل کریں تو درخت کے نیچے بھی معیاری تعلیم دی جاسکتی ہے ۔

ماہنامہ طفلی : آخر میں ہمارے قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چا ہیں گے؟

عبدالحئی ثاقب : جی ہاں !طفلی کے قارئین میگزین کا مطالعہ تواتر سے جاری رکھیں۔ اگر وہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہمارے مشوروں پر عمل کرتے ہیں تو یہ جان لیں کہ کچھ تجاویز کا نتیجہ دیر سے آئے گا ۔ کچھ کے نتائج آنے میں چند سال بھی لگ سکتے ہیں ۔لیکن یہ یقین رکھیں کہ بچے کی تعلیم وتربیت اور اس کی شخصیت کومکمل بنانے میں یہ تجاویز انتہائی موثر اور آزمودہ ہیں ۔ ان تجاویز کے نتائج آپ کو ہمارے ادارے کی تعریف کرنے پر مجبور کردیں گے(انشاء اللہ)۔

 

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ اکتوبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)