مطالعےکی عادت ، قابلیت کی ضمانت
ذاکراللہ خان

ایک زمانہ تھا جب مائیں اپنے بچوں کو مختلف تاریخی واقعات، بادشاہوں کے قصےاور پریوں کی کہانیاں سناتی تھیں ۔بچے یہ کہانیاںسن کر نہ صرف خوش ہوتے بلکہ ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پختہ ہوتی، یوں وہ خیالوں ہی خیالوں میں ایک دنیا آباد کر لیتے اور ان کا ذہن بھی روشن ہوتا۔

یہ کہانیاں ان کی ذہانت میں اضافے کے ساتھ ان میں مطالعے کے شوق اور عادت کا سبب بھی بنتی تھیں ۔ بڑے ہونے پر بچے خود اپنی من پسند کہانیوں کی کتابیں خرید تے اور کتابوں کو پڑھ کر خیالات کی انوکھی دنیا میں پہنچ جاتے۔لیکن حالاتِ حاضرہ کے تنا ظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کے نوجوانوں میں کتب بینی کا فقدان ہے ۔

ایسے کئی نوجوان ہیں جو زندگی میں بہت کچھ حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر مطالعہ اور تحقیق کرنا ان کےلیے ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ بیشتر نوجوان تو دنیا کی بہترین دوست”کتاب”کو بوریت کا سبب سمجھتے ہیں۔ کتب بینی سے دور بھاگنے کی ایک وجہ جدید ٹیکنالوجی کا بے تحاشا استعمال بھی ہے ۔نوجوان اپنا زیادہ وقت موبائل اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گنوا دیتے ہیں۔ کتب بینی کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا ۔ عام طور پر والدین شکایت کرتے ہیں کہ بچوں کو مطالعے کا شوق نہیں ہے ، غیر نصابی کیا وہ تونصابی کتب کا مطالعہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ، لیکن اس میں قصور وار کون ہے ؟نسلِ نو؟ نہیں ! بنیادی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے ہی نئی نسل کے ہاتھ سے کتاب چھین کر پہلے ٹی وی کا ریموٹ اور اب ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون تھمادیا ہے۔ جس سے نہ صرف اس نسل کی آنکھیں کمزور ہورہی ہیں بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں ۔

کتب بینی سے دور بھاگنے کی وجہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہے۔

پہلے زمانے میں گھر کے بڑے ،بچوں کو کتابیں خرید کر دیتے تھے۔ خود بھی مطالعہ کرتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی کتب بینی کی تلقین کرتے تھے ، ان کی دل چسپی کے لحاظ سے کتابیں تجویز کرتے تھے ،مگر اب یہ عالم ہےکہ گھر کے بڑے خود سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور موبائل فون پر مشغول رہتے ہیں ،ایسی صورت میں وہ نوجوانوں کوکیا سبق دیں گے ؟ آج کے دور میں بچوں کو درسی کتابیں اس طرح رٹوائی جاتی ہیں کہ بچپن ہی سے انھیں کتب بینی بوجھ لگنے لگتی ہے ۔جب بچپن ہی سےمطالعے کا شوق پروان نہیں چڑھے گا تو یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ بڑے ہو کرکتب بینی کے شوقین ہوں گے ؟نسل نوبرباد ہورہی ہے اور وہ تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر نے میں مصروف ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری ہم سب پرعائد ہوتی ہے ۔آج سب شکوہ کرتے ہیں کہ آج کے طالب علم کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ۔لیکن ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے بویاہے۔سب بھیڑ چال میں مصروف ہیں۔کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی

کتابوں سے دوستی ذہنی تنائو اور انتشار کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

سے ہم آہنگی ناگزیر ہے ،تاہم اس کےلیے چیک اینڈ بیلنس کی اشد ضرورت ہے اور نوجوانوں کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ مطالعہ بھی ناگزیر ہے ، کتابوں سے دوستی ذہنی تنائو اور انتشار کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔ جس طرح جسم کواچھی متوازن غذاکی ضرورت ہے ۔اسی طرح دماغ کو بھی خوبصورت خیالات کی غذا درکار ہے ۔ مطالعے سے دل ودماغ کے بند دریچے کھلتے ہیں۔ شعور پختہ ہوتا ہے اور فکر کو وسعت ملتی ہے۔ اعلیٰ نظریات، تخلیقی خیالات اور نت نئے تخیلات یہ سب مطالعے ہی کی دین ہیں۔ کتب بینی پاکستان کے نوجوانوںکی بنیادی ضرورت ہے۔ نسل نو کو چاہیے کہ اس ملک اور خود اپنی بہتری کےلیے بے کار اور وقت ضائع کرنے والی سرگرمیوں سے دوری اختیار کریں ،کتابوں سے دوستی کریں اور مطالعے کی عادت اپنائیں ۔اس ملک کے مستقبل کو روشن بنانے کےلیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں ۔ اپنے ماہانہ خرچ میں کتاب کے اخراجات کا حصّہ بھی شامل کر لیں۔

شائع شدہ ، ماہنامہ طفلی، شمارہ نومبر۲۰۱۸
سبسکرپشن کے لیے کلک کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)